انتخاب و ترجمہ: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی|
یحییٰ بن اکثم، جو عہدِ مأمون میں بصرہ کا سب سے بڑا اور نامور قاضی سمجھا جاتا تھا، علم و مناظرے میں اپنی مثال آپ تھا۔ مگر یہی یحییٰ بن اکثم، جب عالم آل محمد حضرت علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام کے سامنے مناظرے میں آیا تو شکست سے دوچار ہوا۔ اسی طرح مأمون ہی کی موجودگی میں امام محمد تقی جواد علیہ السلام سے بھی مناظرے میں عاجز و مغلوب ٹھہرا۔ ان دونوں تاریخی مناظروں نے یحییٰ بن اکثم اور مأمون دونوں کو اس حقیقت پر یقین دلایا کہ علمِ حقیقی، روحانی سیادت اور الٰہی حکمت صرف اور صرف خاندانِ علوی کی میراث ہے۔
مندرجہ ذیل تحریر حضرت ابو الحسن امام علی نقی ہادی علیہ السلام کے ساتھ ہونے والے ایک ایسے ہی علمی مقابلے کی جھلک پیش کرتی ہے:
امام محمد تقی علیہ السلام کے فرزند اور امام علی نقی علیہ السلام کے بھائی امام زادہ حضرت موسیٰ مبرقع علیہ السلام روایت کرتے ہیں کہ میں ایک روز دارالعامہ میں یحییٰ بن اکثم سے ملا۔ اس نے مجھ سے متعدد سوالات کئے۔ اس کے بعد میں اپنے مولیٰ اور بھائی امام علی بن محمد النقی الہادی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میرے اور ان کے درمیان نصیحت، ہدایت اور روحانی بصیرت سے بھرپور گفتگو ہوئی، یہاں تک کہ انہوں نے مجھے اپنی اطاعت پر ثابت قدم کیا اور حقائقِ امور سے میری آنکھیں کھول دیں۔
میں نے عرض کیا: مولیٰ! آپ پر قربان ہو جاؤں، یحییٰ ابن اکثم نے مجھے ایک مکتوب دیا ہے، جس میں اس نے چند سوالات تحریر کئے ہیں اور چاہتا ہے کہ میں ان کے جوابات لکھوں۔
یہ سن کر امام علیہ السلام مسکرائے اور فرمایا: کیا تم نے اس کا جواب دے دیا ہے؟ میں نے عرض کیا: نہیں، میں ان کا جواب نہ دے سکا۔ فرمایا: اس نے کیا سوالات کئے ہیں؟ میں نے عرض کیا: اس نے اپنے خط میں قرآنِ مجید کی بعض آیات کے بارے میں سوال کئے ہیں۔
چنانچہ جناب موسیٰ مبرقع علیہ السلام نے یحییٰ بن اکثم کے تمام سوالات امام علی نقی علیہ السلام کے سامنے پیش کئے۔ امام علی نقی ہادی علیہ السلام نے فرمایا: اسے جواب لکھو۔
میں نے عرض کیا: مولیٰ! کیا لکھوں؟ فرمایا: یوں تحریر کرو:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ تمہیں راہِ ہدایت نصیب فرمائے۔ تمہارا خط مجھے موصول ہوا۔ ایسا خط جس میں تم نے عیب جوئی اور آزمائش کی نیت سے ہمیں پرکھنا چاہا، تاکہ اگر ہم کہیں لغزش دکھائیں تو تمہیں طعن و تشنیع کا موقع مل جائے۔
مجھے امید ہے کہ اللہ تمہیں تمہاری نیت اور تمہارے باطن کے قصد کے مطابق بدلہ دے گا۔
ہم نے تمہارے تمام سوالات کی وضاحت اور شرح بیان کر دی ہے۔ پس انہیں غور سے سنو، اپنی عقل کو ان کے تابع کر لو، اپنے دل کو ان پر مطمئن کر لو اور اپنی پوری توجہ ان ہی پر مرکوز رکھو، کیونکہ یقینا تم پر حجت تمام ہو چکی ہے۔
والسّلام
سوالات و جوابات مندرجہ ذیل تھے۔
سوال 1 : آیتِ کریمہ: "وَقالَ الَّذی عِندَهُ عِلمٌ مِنَ الکِتابِ أَنا آتیکَ بِهِ قَبلَ أَن یَرتَدَّ إِلَیکَ طَرفُکَ" (اور ایک شخص نے جس کے پاس کتاب کا ایک حصہّ علم تھا اس نے کہا کہ میں اتنی جلدی لے آؤں گا کہ آپ کی پلک بھی نہ جھپکنے پائے. سورہ نمل، آیت 40) کے بارے میں سوال کیا گیا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ بلقیس کا تخت منگوایا، اور آصف بن برخیا نے پلک جھپکنے سے پہلے وہ تخت حاضر کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام جو نبیِ خدا تھے، آصف بن برخیا کے علم سے کیسے بے خبر رہے؟ اور وہ خود اس تخت کو کیوں حاضر نہ کر سکے؟
امام علی نقی علیہ السلام نے جواب دیا: حضرت سلیمان علیہ السلام اس کام کی انجام دہی پر مکمل قدرت رکھتے تھے، مگر انہوں نے یہ چاہا کہ لوگوں کے سامنے آصف بن برخیا کی علمی عظمت ظاہر ہو جائے اور اپنے بعد آنے والے خلیفہ و جانشین کو، جو علم میں دوسروں پر فضیلت رکھتا تھا، متعارف کرا دیں۔ آصف بن برخیا حضرت سلیمان کے خلیفہ اور جانشین تھے اور جو کچھ علم و دانش ان کے پاس تھا وہ سب مکتبِ نبوتِ سلیمان سے حاصل کیا ہوا تھا۔ یہ انبیاءِ الٰہی کی سنت رہی ہے کہ وہ اپنے جانشینوں کو علم و فضیلت کے ذریعہ امت کے سامنے متعارف کرواتے ہیں۔
سوال 2: آیتِ کریمہ: "وَرَفَعَ أَبَوَیهِ عَلَی العَرشِ وَخَرّوا لَهُ سُجَّدًا" (اور انہوں نے والدین کو بلند مقام پر تخت پر جگہ دی اور سب لوگ یوسف کے سامنے سجدہ میں گر پڑے. سورہ یوسف، آیت 100) جو حضرت یعقوب علیہ السلام کے کنعان سے مصر آ کر حضرت یوسف علیہ السلام کو پہچاننے اور یوسف کے لئے ان کے اور ان کے بیٹوں کے سجدہ کرنے کے واقعہ سے متعلق ہے—اس بارے میں سوال یہ ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام جو خود نبی تھے، حضرت یوسف علیہ السلام کو سجدہ کیسے کر سکتے ہیں، حالانکہ سجدہ، خضوع اور خشوع صرف پروردگارِ عالم سے مخصوص ہے؟
امام علی نقی علیہ السلام نے فرمایا: حضرت یعقوب علیہ السلام کا سجدہ حضرت یوسف علیہ السلام کے لئے نہیں تھا، بلکہ اپنے گم شدہ بیٹے سے ملاقات کی شکرگزاری میں خداوندِ عالم کے حضور تھا۔ یہ اس نعمت پر شکر تھا کہ برسوں کے بعد ایک ایسے باپ کی آنکھیں روشن ہوئیں جو اپنے بیٹے کی موت کی خبر سن چکا تھا۔ یہ سجدہ اسی نوعیت کا تھا جیسے فرشتوں کا حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنا؛ درحقیقت فرشتوں نے آدم علیہ السلام کو سجدہ نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین تخلیق کے سامنے اطاعت اور شکرگزاری کے طور پر سجدہ بجا لائے تھے۔
سوال 3: آیتِ کریمہ: "وَإِن کُنتَ فی شَکٍّ مِمّا أَنزَلنا إِلَیکَ فَاسأَلِ الَّذینَ یَقرَؤونَ الکِتابَ" (اب اگر تم کو اس میں شک ہے جو ہم نے نازل کیا ہے تو ان لوگوں سے پوچھو جو اس کے پہلے کتاب توریت و انجیل پڑھتے رہے. سورہ یونس، آیت 94) کے مخاطب کے بارے میں سوال کیا گیا کہ کیا اس آیت میں مخاطب خود رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ ہیں؟ کیا وہ آسمانی وحی میں شک رکھتے تھے؟ یا مخاطب کوئی اور ہے؟ اور کن لوگوں سے سوال کرنے کا حکم دیا گیا ہے؟
امام علی نقی علیہ السلام نے جواب دیا: یہ آیت بظاہر رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ سے خطاب کرتی ہے، حالانکہ آپ کو قرآن کی کسی آیت میں ذرّہ برابر بھی شک و تردید نہ تھی۔
اصل میں بعض لوگ یہ کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی فرشتے کو رسول کیوں نہیں بنایا؟ چنانچہ یہ آیت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کے ذریعہ ان ہی لوگوں کے لئے ہے، تاکہ وہ اہلِ کتاب سے پوچھیں اور جان لیں کہ آپ سے پہلے جتنے بھی انبیاء علیہم السلام بھیجے گئے، سب انسان ہی تھے، اپنی قوم کے افراد میں سے تھے، عام انسانی زندگی بسر کرتے تھے، معاشرتی امور میں شریک ہوتے تھے اور لوگوں کے ساتھ میل جول رکھتے تھے۔
جب اہلِ کتاب کی آسمانی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے تو یہ تمام شبہات خود بخود دور ہو جاتے ہیں۔
سوال 4: آیتِ کریمہ: "وَلَوْ أَنَّ مَا فِي الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَا نَفِدَتْ كَلِمَاتُ اللَّهِ" (اور اگر روئے زمین کے تمام درخت قلم بن جائیں اور سمندر کا سہارا دینے کے لئے سات سمندر اور آ جائیں تو بھی کلمات الہٰی تمام ہونے والے نہیں ہیں. سورہ لقمان، آیت 27) کے بارے میں سوال کیا گیا کہ وہ سات سمندر کون سے ہیں کہ اگر ان کے پانی کو اللہ کے کلمات کی تشریح کے لئے استعمال کیا جائے تو وہ سب خشک ہو جائیں، مگر اس کے باوجود اللہ کے کلمات اور اس کی نشانیوں کا بیان ختم نہ ہو؟
امام علی نقی علیہ السلام نے فرمایا: وہ سات سمندر یہ ہیں:
عَینِ کبریت، عَینِ بَرهوت (بحرِ روم/بحیرۂ روم)، فلسطین میں واقع بحرِ طبریہ، بحرِ حَمِئہ، وہ سمندر جس کی مٹی سیاہ اور پانی گرم ہے، جس سے مراد خطِ استوا کے نیچے واقع جھیل البرٹ یا وکٹوریہ ہے، بحرِ مارسیدان یا مارسودان جو سوڈانِ حبشہ میں واقع ہے،
بحرِ افریقیہ اور بحرِ سِجرون ہے۔ اور "کلماتُ اللہ" سے مراد ہم اہلِ بیت، یعنی ائمہ معصومین علیہم السلام ہیں، جو رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کے جانشین ہیں اور ہماری فضیلتیں کبھی ختم ہونے والی نہیں۔
سوال 5: آیتِ کریمہ: "وَفِيهَا مَا تَشْتَهِيهِ الْأَنفُسُ وَتَلَذُّ الْأَعْيُنُ" (اور وہاں ان کے لئے وہ تمام چیزیں ہوں گی جن کی دل میں خواہش ہو. سورہ زخرف آیت 71) کے بارے میں سوال کیا گیا کہ جب جنت میں ہر کھانے اور ہر دیکھنے کی چیز لذت بخش ہے تو پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو گندم کے درخت سے کیوں منع فرمایا؟ اور اس کی نافرمانی پر انہیں سزا دے کر جنت سے نکال کر دنیا میں کیوں بھیج دیا؟
امام علی نقی علیہ السلام نے جواب دیا: اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے یہ عہد لیا تھا کہ وہ حسد کے قریب نہ جائیں اور گندم کے درخت کے پاس نہ پھٹکیں، مگر آدم علیہ السلام حوّا کے اثر میں آ گئے اور گندم کھا لی۔ اسی لئے انہیں جنت سے نکال دیا گیا۔
لیکن جنت میں نفس کی لذت اور آنکھوں کی ٹھنڈک سے مراد دنیا کی طرح کھانا، سونا اور قضائے حاجت نہیں، بلکہ اس سے مراد روحانی اور معنوی لذتیں ہیں۔
سوال 6: آیتِ کریمہ: "أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا" (یا پھر بیٹے اور بیٹیاں دونوں کوجمع کردیتا ہے. سورہ شوری، آیت 50) کے بارے میں سوال کیا گیا کہ کیا مرد کا مرد سے تزویج (ہم جنس پرستی) جائز ہے؟ اگر ایسا نہیں تو قومِ لوط کو اسی عمل پر سخت عذاب کیوں دیا گیا؟
امام علی نقی علیہ السلام نے فرمایا: اس آیت کا پورا مفہوم یوں ہے "لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيمًا ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ" (بیشک آسمان و زمین کا اختیار صرف اللہ کے ہاتھوں میں ہے وہ جوکچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بیٹے عطا کرتا ہے۔ یا پھر بیٹے اور بیٹیاں دونوں کوجمع کردیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بانجھ ہی بنا دیتا ہے یقینا وہ صاحبِ علم بھی ہے اور صاحبِ قدرت و اختیاربھی ہے. سورہ شوری، آیت 49 و 50) لیکن نادان لوگ آیات کو الٹ پلٹ کر پڑھتے ہیں اور لوگوں کو گمراہی کی طرف لے جاتے ہیں۔
سوال 7: آیتِ کریمہ: "وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ" (اور طلاق کے لئے اپنے میں سے دو عادل افراد کو گواہ بناؤ۔ سورہ طلاق، آیت 2) کے بارے میں سوال ہوا کہ کن حالات میں ایک عورت کی اکیلی گواہی قبول کی جاتی ہے، جبکہ عام طور پر گواہی کے لئے مرد ہونا اور عدالت شرط ہے؟
امام علی نقی علیہ السلام نے فرمایا: وہ واحد عورت جس کی گواہی تنہا قبول کی جاتی ہے، دایہ (قابِلَہ) ہے، اور وہ بھی عورتوں سے متعلق امور میں۔ یہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ فریقین اس پر راضی ہوں۔ اور اگر فریقین راضی نہ ہوں تو دو عورتوں کی گواہی لازم ہوگی، اور اگر وہ بھی کافی نہ ہو تو عورتوں کے ایک گروہ کی گواہی معتبر سمجھی جائے گی۔
سوال 8: امیرالمؤمنین امام علی بن ابی طالب علیہ السلام کے اس فرمان کے بارے میں سوال کیا گیا جس میں آپ نے فرمایا: "خنثی اگر مردانہ راستے سے پیشاب کرے تو وراثت میں مردوں کے ساتھ شمار ہوگا اور اگر زنانہ راستے سے پیشاب کرے تو وراثت میں عورتوں کے ساتھ ملحق ہوگا۔" چونکہ اس معاملے میں خود خنثی کی گواہی قابلِ قبول نہیں، تو پھر اس کی تشخیص کس کے ذریعہ ہوگی؟ اگر یہ کام کسی مرد کے سپرد کیا جائے اور وہ اس کے زنانہ عضو کو دیکھے، یا کسی عورت کے سپرد کیا جائے اور وہ اس کے مردانہ عضو پر نظر ڈالے، تو یہ عمل تو حرام ہوگا۔
ایسی صورت میں شناخت کا طریقہ کیا ہے؟
امام علی نقی علیہ السلام نے جواب دیا: چند عادل اور قابلِ اعتماد افراد کو چاہیے کہ ایک آئینے میں، جو اس کے سامنے رکھا جائے، نظر ڈالیں اور پیشاب کے نکلنے کے راستے کی تشخیص کریں، تاکہ خنثی کے مرد یا عورت ہونے کا فیصلہ ہو جائے۔
سوال 9: اس بھیڑ کے بارے میں سوال کیا گیا جس کے ساتھ بدفعلی (موطاۃ) کی گئی ہو، اور جو دوسری بھیڑوں کے درمیان مشتبہ ہو کہ وہی ہے یا کوئی اور، ہمارے لئے اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
امام علی نقی علیہ السلام نے فرمایا: اگر وہ بھیڑ پہچان لی جائے جس کے ساتھ بدفعلی ہوئی ہے تو اسے ذبح کر دیا جائے اور آگ میں جلا دیا جائے۔
اور اگر اس کی پہچان ممکن نہ ہو تو قرعہ اندازی کے ذریعہ مشتبہ بھیڑ کو ریوڑ سے الگ کر لیا جائے، پھر اسے ذبح کر کے آگ میں جلا دیا جائے، تاکہ باقی بھیڑیں آلودگی اور حرمت سے محفوظ رہیں۔
سوال 10: نمازِ فجر میں قرأت بلند آواز سے پڑھنے اور نمازِ ظہر و عصر میں آہستہ آواز سے پڑھنے کی کیا وجہ ہے، حالانکہ یہ سب یومیہ واجب نمازوں میں شامل ہیں؟
امام علی نقی علیہ السلام نے جواب دیا: چونکہ نمازِ فجر کے وقت اندھیرا ہوتا ہے اور نمازی کو کوئی نہیں دیکھتا، اس لئے حکم دیا گیا کہ اس نماز میں قرأت بلند آواز سے ہو اور نمازِ ظہر و عصر چونکہ دن کی روشنی میں ادا کی جاتی ہیں، جہاں سب لوگ نمازی کو دیکھتے ہیں اس لئے ان میں آہستہ آواز سے قرأت کرنا زیادہ مناسب قرار دیا گیا ہے۔
سوال 11: آخر کیوں امیرالمؤمنین امام علی علیہ السلام نے زبیر کے قاتل کو آتشِ جہنم کی بشارت دی اور جنگِ جمل میں خود امیر المومنین علیہ السلام نے زبیر کو قتل نہیں کیا، حالانکہ وہ اس وقت خلیفۂ وقت اور صاحبِ اقتدار امام تھے؟
امام علی نقی علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: اس لئے کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا تھا کہ “صفیّہ” (یعنی زبیر) کا قاتل جنگِ نہروان میں خروج کرے گا اور وہیں قتل ہوگا۔ لہٰذا امیرالمؤمنین امام علی علیہ السلام نے جنگِ جمل میں زبیر کو آزاد چھوڑ دیا، کیونکہ امیرالمؤمنین امام علی علیہ السلام کو یقین تھا کہ وہ نہروان کے خوارج میں شامل ہو کر قتل ہوگا، اور رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا۔
سوال 12: امیرالمؤمنین امام علی علیہ السلام نے جنگِ صفین میں حکم دیا کہ شامیوں کو ہر حال میں قتل کیا جائے، چاہے وہ سالم ہوں یا زخمی، پیدل ہوں یا سوار، مسلح ہوں یا غیر مسلح، جہاں بھی ملیں ان پر تلوار چلائی جائے؛ لیکن جنگِ جمل میں ایسا حکم نہیں دیا بلکہ فرمایا: صرف جنگ کرنے والوں کا پیچھا کیا جائے۔
ان دونوں احکام میں فرق کیوں ہے؟
امام علی نقی علیہ السلام نے فرمایا: ہر حکم اپنی جگہ درست ہوتا ہے اور ہر فیصلہ اپنے خاص موقع پر پسندیدہ ہوتا ہے، جو کسی دوسرے موقع پر ناپسندیدہ ہو سکتا ہے۔ اگر شامیوں کی عناد، ضد اور دشمنی کو، اور خوارج کے حالات کو، نیز جنگ کے وقت، مقام اور اس دور کے مصالح کو مدِنظر رکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ حکم مصلحت کے مطابق تھا۔
سوال 13: اگر کوئی شخص لواط کا اقرار کرے تو کیا اس پر حد جاری ہوگی یا نہیں؟
امام علی نقی علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: اگر اس کا اقرار شرعی دلیلوں اور گواہوں سے ثابت نہ ہو تو امام کو اختیار ہے کہ اسے سزا نہ دے، کیونکہ قرآنِ کریم میں ارشادِ الٰہی ہے: "هٰذا عَطاؤُنا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ" (یہ سب میری عطا ہے اب چاہے لوگوں کو دیدو یا اپنے پاس رکھو. سورہ ص، آیت 39)
(کتاب تحف العقول (علامہ محدث حسن بن علی بن حسین بن شُعبَه حَرّانی المعروف بہ ابن شعبه حرانی) سے ماخوذ)









آپ کا تبصرہ